سعد
بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کا تعلق قریش کے قبیلہ بنو زہرہ سے تھا جو محمد
صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ننھیالی خاندان ہے ۔اس لیے آپ رشتے میں حضور
کے ماموں زاد بھائی تھے۔ حمزہ بن عبدالمطلب کی والدہ آپ کی سگی پھوپھی تھیں
سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کا تعلق قریش کے قبیلہ
بنو زہرہ سے تھا جو محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ننھیالی خاندان ہے
۔اس لیے آپ رشتے میں حضور کے ماموں زاد بھائی تھے۔ حمزہ بن عبدالمطلب کی
والدہ آپ کی سگی پھوپھی تھیں۔ ہجرت مدینہ سے تیس برس پہلے پیدا ہوئے۔ نزول
وحی کے ساتویں روز ابوبکرصدیق کے ترغیب دلانے پر مشرف با اسلام ہوئے۔ اور
عمر بھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے محافظ خصوصی کے فرائض انجام دئیے۔
سعد بن ابی وقاص بہت مضبوط جسم کے انسان تھے۔ قد چھوٹا ہونے کے باوجود رعب دار شخصیت کے مالک تھے۔ آپ کا بڑا سر آپ کے مدبر ہونے کی غمازی کرتا تھا اور مضبوط انگلیاں قوت بازو کی شاہد تھیں۔ تیر اندازی میں اپنا جواب نہیں رکھتے تھے۔ اسلام کی خاطر سب سے پہلے کسی کافر کا خون بہانے کا شرف آپ کو حاصل ہوا۔ جب دور ابتلاء میں کفار نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ کرنا چاہا تو ایک مردہ اونٹ کی ہڈی سے دشمنوں پر حملہ کرکے ان میں سے ایک کو لہولہان کردیا اور باقی سب بھاگ جانے پر مجبور ہوگئے۔
سعد بن ابی وقاص اور ان کا خاندان ذوق جہاد میں بہت ممتاز تھے۔ غزوہ بدر میں آپ کے کم عمر بھائی عمیر نے اصرار کرکے شرکت کی اجازت لی اور معروف پہلوان عمرو بن عبدود کے ساتھ مقابلہ کرکے جام شہادت نوش کیا۔ سعد رضی اللہ عنہ نے قریش کے ناقابل شکست سردار سعد بن العاص کو جہنم رسید کیا اور تین کافروں کو باندھ کر حضور کی خدمت میں پیش کیا۔غزوہ احد میں آپ نے تیر اندازی سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اس وقت تک حفاظت کی جب مسلمان تیر اندازوں کے پشت سے ہٹ جانے کے سبب خالد بن ولید کے دستے نے عقب سے حملہ کرکے بہت نازک صورت حال پیدا کر دی تھی۔ اس موقع پر حضور فرما رہے تھے۔ ”اے سعد تجھ پرمیرے ماں باپ قربان تیر چلاتے جاوٴ۔“ غالباً اس انداز سے حضور نے کسی اور صحابی کو کبھی مخاطب نہیں کیا۔ "عامر بن سعد اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے لئے احد کے دن اپنے ماں باپ کو جمع فرمایا سعد فرماتے ہیں کہ مشرکوں میں سے ایک آدمی تھا کہ جس نے مسلمانوں کو جلا ڈالا تھا تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سعد سے فرمایا اے سعد تیر پھینک میرے ماں باپ تجھ پر قربان سعد فرماتے ہیں کہ میں نے بغیر پرکھے تیر کھینچ کر اس کے پہلو پر مارا جس سے وہ گر پڑا اور اس کی شرمگاہ کھل گئی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہنس پڑے یہاں تک کہ میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی داڑھیں مبارک دیکھیں"۔
سعد بن ابی وقاص نے غزوہ خندق میں بھی داد شجاعت دی۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر بیعت رضوان میں شریک ہوئے۔ فتح مکہ کے موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تین صحابہ کو علمبردار مقرر کیا ان میں سے ایک سعد بن ابی وقاص بھی تھے۔ غزوہ حنین میں شرکت کا شرف بھی آپ کو حاصل تھا۔ فتح خیبر میں بھی آپ رسول اللہ کے ہم رکاب تھے اور غزوہ حنین میں بھی آپ کا خاص اعزاز یہ تھا کہ خطرناک ترین حالات میں آپ کو رسول اللہ ﷺکی حفاظت کی ذمہ داری سونپی گئی۔حجہ الوداع کے موقع پر اتنے بیمار ہوگئے کہ صحت یابی کی امید نہ رہی۔ حضور نے دعا فرمائی چہرے اور شکم پر دست مبارک پھیرا اور آپ صحت یاب ہوگئے۔ اس موقع پر آپ کے دعائیہ کلمات آپ کے فاتح قادسیہ ہونے کی پیش گوئی کا رنگ لیے ہوئے ہیں۔ آپ نے فریایا۔ سعد شاید خدا تم کو بستر سے اٹھائے اور تم سے کچھ لوگوں کوفائدہ اور کچھ کو نقصان پہنچے۔ آپ نے اس موقع پر اپنا سارا مال صدقہ کر دینا چاہا لیکن حضور نے صرف ایک تہائی صدقہ کرنے کی اجازت دی۔
آپ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کرنے میں پہل کرنے والوں میں سے تھے اور انتظامی صلاحیت کی وجہ سے آپ کو بنو ہوازن کا عامل مقرر کیا گیا۔ اس منصب پر آپ کئی سال فائز رہے۔آپ کی زندگی کا بہت عظیم کارنامہ یہ ہے کہ آپ نے اس نازک وقت میں اسلامی لشکر کی قیادت کی ۔جب ایران کے محاذ کی صورت بہت تشویشناک تھی۔ جسر کی جنگ میں ابوعبیدہ ثقفی شہید ہو گئے تھے ۔ ایران میں نوجوان بادشاہ یزد گرد نے اقتدار سنبھال کر ایران کی فوجی حمیت کو اپیل کی تھی اور ایک لشکر جرار تیار کرکے اسلامی سلطنت پر حملہ آور ہونے کے احکامات جاری کیے تھے۔ ان حالات میں بعض صحابہ کی رائے یہ تھی کہ امیرالمومنین عمر بن خطاب کو خود محاذ پر جانا چاہیے۔ چنانچہ وہ مدینہ سے اس نیت سے روانہ ہو بھی گئے لیکن بعد میں علی المرتضی اور عبدالرحمن بن عوف نے سعد بن ابی وقاص کو سپہ سالار مقرر کرنے کی تجویز پیش کی۔ اس طرح یہ جہاندیدہ اور بہادر جرنیل محاذ جنگ پر پہنچا۔
قادسیہ کی جنگ طویل ترین سب سے زیادہ فیصلہ کن اور اہم جنگ تھی۔ تین روز کی اس جنگ میں شجاعت کے نئے ریکارڈ قائم ہوئے۔ جنگی چالوں میں دشمن کو مات دی گئی اور کسریٰ کی عظیم فوج کی شکست سے اس کی سلطنت کی بنیادیں ہل گئیں۔جنگ کے بعد سعد بن ابی وقاص نے یکے بعد دیگرے ایران کے تمام فوجی مراکز کو سرنگوں کیااور ایرانی درالحکومت مدائن کی طرف پیش قدمی کی۔ دریائے دجلہ کی طغیانی اور تند و تیز موجیں بھی لشکر اسلام کا راستہ نہ روک سکیں اور سعد بن ابی وقاص نے خدا کا نام لے کر اپنے گھوڑے کو دریا میں ڈال دیا۔ مسلمان ہنستے کھیلتے دریا عبور کرنے لگے تو ایرانی دیو آگئے دیو آگئے پکارتے ہوئے راہ فرار اختیار کر گئے۔ مدائن کے بعد جلولا اور دوسرے شہر فتح ہوئے اور نوادرات اور مال غنیمت مدینہ روانہ کر دئیے گئے۔
سعد بن ابی وقاص مفتوحہ ایران کے پہلے امیر تھے۔ آپ نے کچھ دیر تک مدائن کو اپنا مرکز حکومت بنایا پھر 17 ھ میں کوفہ کا شہر بسایا۔ آپ کے دور امارت میں بے شمار مدرسے ، مکتب ، مساجد پل اور نہریں بنائی گئیں۔ عمرفاروق نے بعض شکایات موصول ہونے پر 21 ھ کو سعد بن ابی وقاص کو ان کی ذمہ داریوں سے سبکدوش کردیا۔
عمرفاروق نے جن چھ افراد کو خلیفہ منتخب کرنے کا اختیار دیا تھا۔ سعد بن ابی وقاص ان میں سے ایک تھے۔ عثمان ذو النورین نے آپ کو دوبارہ کوفہ کا والی مقرر کیا۔ عبداللہ بن مسعود سے اختلاف ہو جانے پر تین سال بعد آپ کو پھر اس منصب سے علیحدہ کر دیا گیا۔
سعد بن ابی وقاص بہت مضبوط جسم کے انسان تھے۔ قد چھوٹا ہونے کے باوجود رعب دار شخصیت کے مالک تھے۔ آپ کا بڑا سر آپ کے مدبر ہونے کی غمازی کرتا تھا اور مضبوط انگلیاں قوت بازو کی شاہد تھیں۔ تیر اندازی میں اپنا جواب نہیں رکھتے تھے۔ اسلام کی خاطر سب سے پہلے کسی کافر کا خون بہانے کا شرف آپ کو حاصل ہوا۔ جب دور ابتلاء میں کفار نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ کرنا چاہا تو ایک مردہ اونٹ کی ہڈی سے دشمنوں پر حملہ کرکے ان میں سے ایک کو لہولہان کردیا اور باقی سب بھاگ جانے پر مجبور ہوگئے۔
سعد بن ابی وقاص اور ان کا خاندان ذوق جہاد میں بہت ممتاز تھے۔ غزوہ بدر میں آپ کے کم عمر بھائی عمیر نے اصرار کرکے شرکت کی اجازت لی اور معروف پہلوان عمرو بن عبدود کے ساتھ مقابلہ کرکے جام شہادت نوش کیا۔ سعد رضی اللہ عنہ نے قریش کے ناقابل شکست سردار سعد بن العاص کو جہنم رسید کیا اور تین کافروں کو باندھ کر حضور کی خدمت میں پیش کیا۔غزوہ احد میں آپ نے تیر اندازی سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اس وقت تک حفاظت کی جب مسلمان تیر اندازوں کے پشت سے ہٹ جانے کے سبب خالد بن ولید کے دستے نے عقب سے حملہ کرکے بہت نازک صورت حال پیدا کر دی تھی۔ اس موقع پر حضور فرما رہے تھے۔ ”اے سعد تجھ پرمیرے ماں باپ قربان تیر چلاتے جاوٴ۔“ غالباً اس انداز سے حضور نے کسی اور صحابی کو کبھی مخاطب نہیں کیا۔ "عامر بن سعد اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے لئے احد کے دن اپنے ماں باپ کو جمع فرمایا سعد فرماتے ہیں کہ مشرکوں میں سے ایک آدمی تھا کہ جس نے مسلمانوں کو جلا ڈالا تھا تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سعد سے فرمایا اے سعد تیر پھینک میرے ماں باپ تجھ پر قربان سعد فرماتے ہیں کہ میں نے بغیر پرکھے تیر کھینچ کر اس کے پہلو پر مارا جس سے وہ گر پڑا اور اس کی شرمگاہ کھل گئی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہنس پڑے یہاں تک کہ میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی داڑھیں مبارک دیکھیں"۔
سعد بن ابی وقاص نے غزوہ خندق میں بھی داد شجاعت دی۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر بیعت رضوان میں شریک ہوئے۔ فتح مکہ کے موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تین صحابہ کو علمبردار مقرر کیا ان میں سے ایک سعد بن ابی وقاص بھی تھے۔ غزوہ حنین میں شرکت کا شرف بھی آپ کو حاصل تھا۔ فتح خیبر میں بھی آپ رسول اللہ کے ہم رکاب تھے اور غزوہ حنین میں بھی آپ کا خاص اعزاز یہ تھا کہ خطرناک ترین حالات میں آپ کو رسول اللہ ﷺکی حفاظت کی ذمہ داری سونپی گئی۔حجہ الوداع کے موقع پر اتنے بیمار ہوگئے کہ صحت یابی کی امید نہ رہی۔ حضور نے دعا فرمائی چہرے اور شکم پر دست مبارک پھیرا اور آپ صحت یاب ہوگئے۔ اس موقع پر آپ کے دعائیہ کلمات آپ کے فاتح قادسیہ ہونے کی پیش گوئی کا رنگ لیے ہوئے ہیں۔ آپ نے فریایا۔ سعد شاید خدا تم کو بستر سے اٹھائے اور تم سے کچھ لوگوں کوفائدہ اور کچھ کو نقصان پہنچے۔ آپ نے اس موقع پر اپنا سارا مال صدقہ کر دینا چاہا لیکن حضور نے صرف ایک تہائی صدقہ کرنے کی اجازت دی۔
آپ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کرنے میں پہل کرنے والوں میں سے تھے اور انتظامی صلاحیت کی وجہ سے آپ کو بنو ہوازن کا عامل مقرر کیا گیا۔ اس منصب پر آپ کئی سال فائز رہے۔آپ کی زندگی کا بہت عظیم کارنامہ یہ ہے کہ آپ نے اس نازک وقت میں اسلامی لشکر کی قیادت کی ۔جب ایران کے محاذ کی صورت بہت تشویشناک تھی۔ جسر کی جنگ میں ابوعبیدہ ثقفی شہید ہو گئے تھے ۔ ایران میں نوجوان بادشاہ یزد گرد نے اقتدار سنبھال کر ایران کی فوجی حمیت کو اپیل کی تھی اور ایک لشکر جرار تیار کرکے اسلامی سلطنت پر حملہ آور ہونے کے احکامات جاری کیے تھے۔ ان حالات میں بعض صحابہ کی رائے یہ تھی کہ امیرالمومنین عمر بن خطاب کو خود محاذ پر جانا چاہیے۔ چنانچہ وہ مدینہ سے اس نیت سے روانہ ہو بھی گئے لیکن بعد میں علی المرتضی اور عبدالرحمن بن عوف نے سعد بن ابی وقاص کو سپہ سالار مقرر کرنے کی تجویز پیش کی۔ اس طرح یہ جہاندیدہ اور بہادر جرنیل محاذ جنگ پر پہنچا۔
قادسیہ کی جنگ طویل ترین سب سے زیادہ فیصلہ کن اور اہم جنگ تھی۔ تین روز کی اس جنگ میں شجاعت کے نئے ریکارڈ قائم ہوئے۔ جنگی چالوں میں دشمن کو مات دی گئی اور کسریٰ کی عظیم فوج کی شکست سے اس کی سلطنت کی بنیادیں ہل گئیں۔جنگ کے بعد سعد بن ابی وقاص نے یکے بعد دیگرے ایران کے تمام فوجی مراکز کو سرنگوں کیااور ایرانی درالحکومت مدائن کی طرف پیش قدمی کی۔ دریائے دجلہ کی طغیانی اور تند و تیز موجیں بھی لشکر اسلام کا راستہ نہ روک سکیں اور سعد بن ابی وقاص نے خدا کا نام لے کر اپنے گھوڑے کو دریا میں ڈال دیا۔ مسلمان ہنستے کھیلتے دریا عبور کرنے لگے تو ایرانی دیو آگئے دیو آگئے پکارتے ہوئے راہ فرار اختیار کر گئے۔ مدائن کے بعد جلولا اور دوسرے شہر فتح ہوئے اور نوادرات اور مال غنیمت مدینہ روانہ کر دئیے گئے۔
سعد بن ابی وقاص مفتوحہ ایران کے پہلے امیر تھے۔ آپ نے کچھ دیر تک مدائن کو اپنا مرکز حکومت بنایا پھر 17 ھ میں کوفہ کا شہر بسایا۔ آپ کے دور امارت میں بے شمار مدرسے ، مکتب ، مساجد پل اور نہریں بنائی گئیں۔ عمرفاروق نے بعض شکایات موصول ہونے پر 21 ھ کو سعد بن ابی وقاص کو ان کی ذمہ داریوں سے سبکدوش کردیا۔
عمرفاروق نے جن چھ افراد کو خلیفہ منتخب کرنے کا اختیار دیا تھا۔ سعد بن ابی وقاص ان میں سے ایک تھے۔ عثمان ذو النورین نے آپ کو دوبارہ کوفہ کا والی مقرر کیا۔ عبداللہ بن مسعود سے اختلاف ہو جانے پر تین سال بعد آپ کو پھر اس منصب سے علیحدہ کر دیا گیا۔