حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ
نے فرمایا”جس نے ایمان اور احتساب کے احساس کے ساتھ رمضان کے
روزے رکھے اور احتساب کے احساس کے ساتھ قیام کیا اس کے
پچھلے سارے گناہ معاف کردیے جائیں گے
جب شیاطین جکڑ لئے جاتے ہیں․․
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا”جب رمضان کی پہلی رات آتی ہے تو شیطان اور اور سرکش جن قید کر لیے جاتے ہیں ۔دوزخ کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں ۔اس کا کوئی دروازہ نہیں کھولاجاتا ۔آواز دینے والا پکاراتا ہے اے خیر کے طلب کرنے والے متوجہ ہو اور اے شرکے طلب کرنے والے اور اللہ کے لیے آگ سے آزاد ہونے والے ہیں ہر رات ہوتا ہے۔
بخشش اور مغفرت کا مہینہ․․
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا”جس نے ایمان اور احتساب کے احساس کے ساتھ رمضان کے روزے رکھے اس کے پچھلے سارے گناہ معاف کردیے جائیں گے اور جس نے ایمان اور احتساب کے احساس کے ساتھ قیام کیا اس کے پچھلے گناہ معاف کردیے جائیں گے اور جس نے لیلتہ القدر کی رات ایمان اور احتساب کے ساتھ قیام کیا اس کے سارے گناہ معاف کردیے جائیں گے۔
روزہ اور قرآن مجید شفاعت کریں گے․․
حضرت عبداللہ بن عمرورضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا”روزے اور قرآن دونوں بندے کی شفاعت کریں گے۔روزے کہیں گے کہ اے رب بے شک میں نے اس کو ان کے وقت کھانے اور شہوت سے روکا۔اس کے بارے میں میری شفاعت کر اور قرآن مجید کہے گا میں نے اس کو رات کے وقت سونے سے روکے رکھا توا س کے معاملے میں میری شفاعت قبول کر۔ چنانچہ دونوں اس کی شفاعت کریں گے۔
روزہ دار کے لیے جنت کے دروازے کا نام․․
حضرت سہل ابن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا” جنت کے آٹھ دروازے ہیں۔ان میں سے ایک دروازے کا نام باب الریان ہے جس میں سے صرف روزے دار داخل ہوں گے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا” ایک آدمی جنگل میں جارہا تھا۔اس نے بادل سے ایک آواز سنی ۔کوئی کہہ رہا تھا کہ فلاں شخص کے باغ کو سیراب کردو۔ وہ بادل چلا اور پتھریلی زمین پر اپنا پانی ڈال دیا۔ ایک نالی نے وہ سار اپانی جمع کیا۔ایک آدمی اپنے باغ میں کھڑا بیلچہ لیے باغ میں پانی پھلارہا تھا۔اس نے کہا اللہ کے بندے تیرا کیا نام ہے۔اس نے کہا میرا نام فلاں ہے ۔یہ وہی نام تھا جو اس بادل سے سنا تھا۔اس نے پوچھا اے اللہ کے بندے تو میرا نام کیوں پوچھ رہا ہے ؟ اس نے کہا میں نے اس بادل سے جس کا یہ پانی ہے اس سے سناتھا ۔وہ کہہ رہا تھا کہ فلاں شخص کے باغ کو سیراب کردو۔تم اس باغ میں کیا کرتے تھے؟اس آدمی نے جواب دیا جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ تم نے یہ بات کہی ہے ہے تو میں بتاتا ہوں ۔اس باغ سے جوپیداوار ہوتی ہے میں اس کو دیکھتا ہوں ۔ایک تنہائی میں صدقہ کردیتا ہوں ایک تنہائی میں اور میرے گھر والے کھاتے ہیں اور ایک تنہائی میں اس باغ میں لوٹا دیتا ہوں ۔(یعنی اس باغ پر خرچ کرتا ہوں)۔
اللہ تعالیٰ کے بندوں کی مدد کرنے کا نقصان․․
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا۔ آپﷺ نے فرمایا”بنی اسرائیل میں تین لوگ تھے ۔ایک کوڑھ زدہ دوسرا گنجااور تیسرا اندھا۔اللہ تعالیٰ نے ان کو آزمانے کا فیصلہ کیا۔ایک فرشتہ ان کے پاس بھیجا۔وہ کوڑھ زدہ کے پاس گیا اور کہا تجھے کون سی چیز سب سے زیادہ پیاری معلوم ہوتی ہے۔وہ کہنے لگا خوبصورت رنگ حسین جسم اور یہ بیماری مجھ سے دور ہوجائے جس کی وجہ سے لوگ مجھ سے گھن کھاتے ہیں۔آپﷺ نے فرمایا”اس فرشتے نے اس کے جسم پر ہاتھ پھیرا ء اس کی بیماری دورہوگئی۔اسے اچھا خوبصورت رنگ تندرست جسم مل گیا۔ اس فرشتے نے پوچھا کہ تمھیں کون سا مال پسند ہے؟ وہ آدمی کہنے لگا مجھے اونٹ یا گائے پسند ہے۔اسحاق نے اس میں شک کیا ہے کہ آپ ﷺ نے اونٹ کہا تھا یاگائے مگر کوڑھ زدہ اور گنجے میں سے ایک نے اونٹ کہا اور دوسرے نے گائے۔چنانچہ اس کو دس ماہ کی حاملہ اونٹنی دے دی گئی اور فرشتے نے کہا کہ اللہ تعالیٰ تیرے لیے اس میں برکت ڈالے پھر وہ گنجے کے پاس آیااورکہا کہ تجھے کیا چیز محبوب ہے؟ اس نے کہا اچھے بال اور میرا گنج ختم ہوجائے جس کی وجہ سے لوگوں کو مجھ سے گھن آتی ہے اس نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا ۔اس سے وہ گنج جاتا رہا اور اسے خوبصورت بال دے دیے گئے ۔پھر فرشتے نے پوچھا تجھے کون سا مال پسند ہے؟ اس نے کہا گائے اس کو حاملہ گائے دے دی گئیں اور کہا اللہ تعالیٰ تیرے لیے اس میں برکت ڈالے۔پھر وہ اندھے کے پاس آیا اور پوچھا تجھے کیا چیز محبوب ہے؟ اس نے کہا اللہ تعالیٰ میری نظرلوٹا دے تاکہ میں لوگو ں کو دیکھ سکوں ۔فرشتے نے ہاتھ پھیرا اللہ تعالیٰ نے اس کی نظراس کو واپس لوٹا دی۔پھر فرشتے نے پوچھا تجھے کون سامال پسند ہے ؟ اس نے کہا بکری اسے ایک حاملہ بکری دے دی گئی اور کہا گیا کہ اللہ تعالیٰ تیرے لیے اس میں برکت پیدا کرے۔پہلے دو کے ہاں اونٹ اور گائے نے بچے دیئے اور تیسرے کے ہاں بکری نے بچے دیئے ۔ سب کا مال بڑھتا گیا۔کو ڑھ زدہ کا ایک جنگل اونٹوں سے بڑھ گیا گنجے کا کائیوں سے اور اندھے کا بکریوں سے آپ ﷺ نے فرمایا”فرشتہ کو ڑھ زدہ کے پاس اس حلیے اور صورت میں گیا اور کہا میں مسکین آدمی ہوں ۔مجھ سے سفر کے اسباب منقطع ہوچکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی عنایت اور آپ کی مدد کے بغیر میں کہیں نہیں پہنچ سکتا ۔میں اس اللہ کے نام پر تجھ سے سوال کرتا ہوں جس نے تجھے خوبصورت رنگ اور تندرست جسم عطا کیا اور اونٹ دیئے ہیں تو مجھے ان میں سے ایک اونٹ دے دے تاکہ میں اپنی منزل مقصود تک پہنچ جاؤں ۔وہ کہنے لگا حقوق بہت زیادہ ہیں ۔ فرشتے نے کہا میں نے تجھے پہچان لیا ہے۔ تووہی کوڑھ روالا ہے جس سے لوگ گھن کھاتے تھے ۔ توفقیر تھا اللہ تعالیٰ نے تجھے مال عطا کیا۔ وہ کہنے لگا میں اپنے باپ دادا کے وقت سے اس مال کا وارث ہوں ۔ فرشتے نے کہا اگر تو جھوٹا ہو تو اللہ تعالیٰ تجھے پہلی حالت میں لوٹا دے۔ پھر وہ گنجے کے پاس آیا اور وہی پہلی صورت اختیار کرلی۔ اس نے بھی اسی طرح جواب دیا اور فرشتے نے کہا اگر تو جھوٹا ہے تو اللہ تعالیٰ تجھے پہلی حالت میں لوٹا دے۔ آپﷺ نے فرمایا”پھر وہ اندھے کے پاس آیا اور اس کی شکل اور حالت اختیار کی اور کہا کہ میں مسکین اور مسافرہوں اور اب سفر کے اسباب مجھ سے کٹ چکے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کی عنایت اور آپ کا سہارا ہے میں اس اللہ کے نام سے آپ سے سوال کرتا ہوں جس نے آپ کو آنکھیں دیں مجھے ایک بکری دے تاکہ میں اس کے سبب اپنی منزل تک پہنچ سکوں اس نے کہا ہاں میں اندھا تھا اللہ تعالیٰ نے میر نظر واپس لوٹا دی۔ تو جو چاہتا ہے لے لے اور جو چاہتا ہے چھوڑدے ۔اللہ کی قسم اللہ کی راہ میں جس قدر چاہیے لے لو میں تجھے تکلیف نہ دوں گا ۔ اس فرشتے نے کہا اپنا مال رکھ لت تمھاری آزمائش کی گئی تھی۔ اللہ تعالیٰ تیرے ساتھیوں سے ناراض اور تجھ سے راضی ہوگیا۔
جب شیاطین جکڑ لئے جاتے ہیں․․
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا”جب رمضان کی پہلی رات آتی ہے تو شیطان اور اور سرکش جن قید کر لیے جاتے ہیں ۔دوزخ کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں ۔اس کا کوئی دروازہ نہیں کھولاجاتا ۔آواز دینے والا پکاراتا ہے اے خیر کے طلب کرنے والے متوجہ ہو اور اے شرکے طلب کرنے والے اور اللہ کے لیے آگ سے آزاد ہونے والے ہیں ہر رات ہوتا ہے۔
بخشش اور مغفرت کا مہینہ․․
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا”جس نے ایمان اور احتساب کے احساس کے ساتھ رمضان کے روزے رکھے اس کے پچھلے سارے گناہ معاف کردیے جائیں گے اور جس نے ایمان اور احتساب کے احساس کے ساتھ قیام کیا اس کے پچھلے گناہ معاف کردیے جائیں گے اور جس نے لیلتہ القدر کی رات ایمان اور احتساب کے ساتھ قیام کیا اس کے سارے گناہ معاف کردیے جائیں گے۔
روزہ اور قرآن مجید شفاعت کریں گے․․
حضرت عبداللہ بن عمرورضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا”روزے اور قرآن دونوں بندے کی شفاعت کریں گے۔روزے کہیں گے کہ اے رب بے شک میں نے اس کو ان کے وقت کھانے اور شہوت سے روکا۔اس کے بارے میں میری شفاعت کر اور قرآن مجید کہے گا میں نے اس کو رات کے وقت سونے سے روکے رکھا توا س کے معاملے میں میری شفاعت قبول کر۔ چنانچہ دونوں اس کی شفاعت کریں گے۔
روزہ دار کے لیے جنت کے دروازے کا نام․․
حضرت سہل ابن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا” جنت کے آٹھ دروازے ہیں۔ان میں سے ایک دروازے کا نام باب الریان ہے جس میں سے صرف روزے دار داخل ہوں گے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا” ایک آدمی جنگل میں جارہا تھا۔اس نے بادل سے ایک آواز سنی ۔کوئی کہہ رہا تھا کہ فلاں شخص کے باغ کو سیراب کردو۔ وہ بادل چلا اور پتھریلی زمین پر اپنا پانی ڈال دیا۔ ایک نالی نے وہ سار اپانی جمع کیا۔ایک آدمی اپنے باغ میں کھڑا بیلچہ لیے باغ میں پانی پھلارہا تھا۔اس نے کہا اللہ کے بندے تیرا کیا نام ہے۔اس نے کہا میرا نام فلاں ہے ۔یہ وہی نام تھا جو اس بادل سے سنا تھا۔اس نے پوچھا اے اللہ کے بندے تو میرا نام کیوں پوچھ رہا ہے ؟ اس نے کہا میں نے اس بادل سے جس کا یہ پانی ہے اس سے سناتھا ۔وہ کہہ رہا تھا کہ فلاں شخص کے باغ کو سیراب کردو۔تم اس باغ میں کیا کرتے تھے؟اس آدمی نے جواب دیا جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ تم نے یہ بات کہی ہے ہے تو میں بتاتا ہوں ۔اس باغ سے جوپیداوار ہوتی ہے میں اس کو دیکھتا ہوں ۔ایک تنہائی میں صدقہ کردیتا ہوں ایک تنہائی میں اور میرے گھر والے کھاتے ہیں اور ایک تنہائی میں اس باغ میں لوٹا دیتا ہوں ۔(یعنی اس باغ پر خرچ کرتا ہوں)۔
اللہ تعالیٰ کے بندوں کی مدد کرنے کا نقصان․․
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا۔ آپﷺ نے فرمایا”بنی اسرائیل میں تین لوگ تھے ۔ایک کوڑھ زدہ دوسرا گنجااور تیسرا اندھا۔اللہ تعالیٰ نے ان کو آزمانے کا فیصلہ کیا۔ایک فرشتہ ان کے پاس بھیجا۔وہ کوڑھ زدہ کے پاس گیا اور کہا تجھے کون سی چیز سب سے زیادہ پیاری معلوم ہوتی ہے۔وہ کہنے لگا خوبصورت رنگ حسین جسم اور یہ بیماری مجھ سے دور ہوجائے جس کی وجہ سے لوگ مجھ سے گھن کھاتے ہیں۔آپﷺ نے فرمایا”اس فرشتے نے اس کے جسم پر ہاتھ پھیرا ء اس کی بیماری دورہوگئی۔اسے اچھا خوبصورت رنگ تندرست جسم مل گیا۔ اس فرشتے نے پوچھا کہ تمھیں کون سا مال پسند ہے؟ وہ آدمی کہنے لگا مجھے اونٹ یا گائے پسند ہے۔اسحاق نے اس میں شک کیا ہے کہ آپ ﷺ نے اونٹ کہا تھا یاگائے مگر کوڑھ زدہ اور گنجے میں سے ایک نے اونٹ کہا اور دوسرے نے گائے۔چنانچہ اس کو دس ماہ کی حاملہ اونٹنی دے دی گئی اور فرشتے نے کہا کہ اللہ تعالیٰ تیرے لیے اس میں برکت ڈالے پھر وہ گنجے کے پاس آیااورکہا کہ تجھے کیا چیز محبوب ہے؟ اس نے کہا اچھے بال اور میرا گنج ختم ہوجائے جس کی وجہ سے لوگوں کو مجھ سے گھن آتی ہے اس نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا ۔اس سے وہ گنج جاتا رہا اور اسے خوبصورت بال دے دیے گئے ۔پھر فرشتے نے پوچھا تجھے کون سا مال پسند ہے؟ اس نے کہا گائے اس کو حاملہ گائے دے دی گئیں اور کہا اللہ تعالیٰ تیرے لیے اس میں برکت ڈالے۔پھر وہ اندھے کے پاس آیا اور پوچھا تجھے کیا چیز محبوب ہے؟ اس نے کہا اللہ تعالیٰ میری نظرلوٹا دے تاکہ میں لوگو ں کو دیکھ سکوں ۔فرشتے نے ہاتھ پھیرا اللہ تعالیٰ نے اس کی نظراس کو واپس لوٹا دی۔پھر فرشتے نے پوچھا تجھے کون سامال پسند ہے ؟ اس نے کہا بکری اسے ایک حاملہ بکری دے دی گئی اور کہا گیا کہ اللہ تعالیٰ تیرے لیے اس میں برکت پیدا کرے۔پہلے دو کے ہاں اونٹ اور گائے نے بچے دیئے اور تیسرے کے ہاں بکری نے بچے دیئے ۔ سب کا مال بڑھتا گیا۔کو ڑھ زدہ کا ایک جنگل اونٹوں سے بڑھ گیا گنجے کا کائیوں سے اور اندھے کا بکریوں سے آپ ﷺ نے فرمایا”فرشتہ کو ڑھ زدہ کے پاس اس حلیے اور صورت میں گیا اور کہا میں مسکین آدمی ہوں ۔مجھ سے سفر کے اسباب منقطع ہوچکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی عنایت اور آپ کی مدد کے بغیر میں کہیں نہیں پہنچ سکتا ۔میں اس اللہ کے نام پر تجھ سے سوال کرتا ہوں جس نے تجھے خوبصورت رنگ اور تندرست جسم عطا کیا اور اونٹ دیئے ہیں تو مجھے ان میں سے ایک اونٹ دے دے تاکہ میں اپنی منزل مقصود تک پہنچ جاؤں ۔وہ کہنے لگا حقوق بہت زیادہ ہیں ۔ فرشتے نے کہا میں نے تجھے پہچان لیا ہے۔ تووہی کوڑھ روالا ہے جس سے لوگ گھن کھاتے تھے ۔ توفقیر تھا اللہ تعالیٰ نے تجھے مال عطا کیا۔ وہ کہنے لگا میں اپنے باپ دادا کے وقت سے اس مال کا وارث ہوں ۔ فرشتے نے کہا اگر تو جھوٹا ہو تو اللہ تعالیٰ تجھے پہلی حالت میں لوٹا دے۔ پھر وہ گنجے کے پاس آیا اور وہی پہلی صورت اختیار کرلی۔ اس نے بھی اسی طرح جواب دیا اور فرشتے نے کہا اگر تو جھوٹا ہے تو اللہ تعالیٰ تجھے پہلی حالت میں لوٹا دے۔ آپﷺ نے فرمایا”پھر وہ اندھے کے پاس آیا اور اس کی شکل اور حالت اختیار کی اور کہا کہ میں مسکین اور مسافرہوں اور اب سفر کے اسباب مجھ سے کٹ چکے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کی عنایت اور آپ کا سہارا ہے میں اس اللہ کے نام سے آپ سے سوال کرتا ہوں جس نے آپ کو آنکھیں دیں مجھے ایک بکری دے تاکہ میں اس کے سبب اپنی منزل تک پہنچ سکوں اس نے کہا ہاں میں اندھا تھا اللہ تعالیٰ نے میر نظر واپس لوٹا دی۔ تو جو چاہتا ہے لے لے اور جو چاہتا ہے چھوڑدے ۔اللہ کی قسم اللہ کی راہ میں جس قدر چاہیے لے لو میں تجھے تکلیف نہ دوں گا ۔ اس فرشتے نے کہا اپنا مال رکھ لت تمھاری آزمائش کی گئی تھی۔ اللہ تعالیٰ تیرے ساتھیوں سے ناراض اور تجھ سے راضی ہوگیا۔
Post a Comment
Your Comment Is under Moderation, and will be visible after Admin Approval.