حضرت ابو بکر صدیقؓ کا شمار مکہ کے کامیاب تاجروں اور رؤسا میں ہوتا تھا ،آپ
کے والد گرامی بھی شرفائے مکہ میں تھے ،حلقہ بگوش اسلام ہونے سے قبل زمانہ
جا ہلیت میں لوگوں کا خون بہا آپؓ کے پاس جمع ہوتا تھا۔ دیانت ،امانت
اورراست بازی کی وجہ سے معاشرے میں قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے،زمانہ
جاہلیت میں بھی شراب سے سخت نفرت تھی ،جوا،قمار اور بت برستی سے ہمیشہ بچے
رہے،الغرض آپ عہد جاہلیت میں بھی اخلاق حمیدہ سے متصف تھے،غریبوں کی خبر
گیری ،بے کسوں اوراپاہجوں کی مدد ،مہمان نوازی اور مسافروں کا خیال کرتے
تھے،پاکیزہ زندگی آپ کا شعار تھا۔
آپ وہ خوش قسمت ترین انسان ہیں جن کے بارے میں پیغمبر اسلامْ ﷺ کا مبارک ارشاد ہے کہ حضرت ابوبکر کے علاوہ کوئی شخص نہیں جس کو میں اسلام کی دعوت دی ہواور اس نے بغیرتامل ،سوچ وبچاراور غور وفکر کے اسلام قبول کر لیا ہو۔تبلیغ اسلام کی وجہ سے مصائب برداشت کئے ،اپنا مال اسلام کے لیے وقف کر دیا،مسلم غلاموں کوخرید کر آزاد کرتے تھے ،ہجرت مدینہ کے سفر میں بنی کریم ﷺ کی معیت نصیب میں آئی،یہ ایک حقیقت ہے کہ آپ کی ہجرت کی ایک رات تمام راتوں سے بہتر تھی جب نبوت کے قدم آبلہ پا ہو گئے تو مخلص وجا نثا ر ساتھی نے سواری کے لیے اپنا کندھا گے پیش کیا ،اور رسول اللہ ﷺ کو غار ثور تک لے گے ،تین دن تک وہاں قیام فرمایا یہیں قرآن پاک کی آیات نصرت الہی کی نوید اور صحابیت صدیق اکبرؓ کے اعلان میں نازل ہوئیں۔یہ ایسی سعادت مندی تھی کہ حضرت عمرؓ اس وجہ سے آپ پر رشک کیاکرتے تھے ۔
ْ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ ہر نبی کے دو وزیر اہل آسمان میں سے اور دو اہل زمین میں سے ہوتے ہیں میرے وزیر اہل آسمان میں جبرائیل اور میکائیل اور اہل زمیں میں سے ابوبکر و عمر ہیں۔(ترمذی)اور فرمایا کہ یقین جانو ! اللہ تعالیٰ نے مجھے تمھاری طرف مبعوث فرمایاتو تم لوگوں نے مجھ سے کہا کہ تم جھوٹ کہتے ہو،صرف ابوبکر نے کہا کہ آپ سچ کہتے ہیں،انہوں نے اپنے مال و جان سے میری غم خواری کی، تو کیا تم اپنی بحث و تنقید سے معاف رکھو گے۔ (صحیح بخاری)سن 9ھجری میں نبی کریم ﷺ نے آپ کو امیر الحجاج بنا کر بھیجا ۔
حضرت ابوبکرؓ واحد شخصیت ہیں جن کے بارے میں رسول اکرم ﷺ کی حیات طیبہ میں ہی ارشاد فرمایا تھا ،ابو بکر سے کہو لوگوں کو نمازپڑھائیں ،اور آپ نے نبی پاک ﷺْ کی موجودگی میں سترہ نمازوں کی امامت کا شرف حاصل کیا۔امت پر سب سے مشکل دن وصال نبوت کا تھا جب تمام صحابہ گومگو کی کیفیت میں مبتلا تھے ، حضرت عمر فاروقؓ جیسا بہادر انسان بھی اس حادثہ عظیم کو ذہنی طور پر قبول کرنے کو تیار نہ تھے،حضرت ابو بکر صدیقؓ نے اس مشکل گھڑی میں امت کو سنبھالا دیا اور راہنمائی کا فریضہ سرانجام دیا،صحابہ کرام نے بالاتفاق آپ کو خلیفۃ الرسول منتخب فرمایا،خلیفہ بننے کے بعد آپؓ نے پوری قوت کے ساتھ فتنوں کا خاتمہ کیا، جھوٹے مدعیان نبوت ہوں یا منکرین زکوٰۃ ہر ایک کو آڑے ہاتھوں لیا ،جیش اسامہ کو روانہ کرکے صحابہ کے جذبوں کو نئی روح عطا کی۔اس میں کوئی شک نہیں کہ خلیفہ دوم حضرت عمر فاروقؓ کے دور خلافت میں بڑی بڑی فتوحات حاصل کی، مہمات امور کا فیصلہ ہوا ،رو م و فارس کی سلطنتوں کو خلافت اسلامیہ میں داخل کیا گیا،لیکن ان سب کی داغ بیل سالار صحابہ، یار غار و مزار خلیفہ رسول سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے دور میں ڈالی گئی۔
خلیفہ راشد سیدنا ابوبکرصدیقؓ کسی بھی اہم معاملے میں اہل الرائے و فقہاء صحابہؓ سے مشورہ لیتے تھے جن میں حضرت عمرؓ ،حضرت عثمانؓ ،حضرت علیؓ ،عبد الرحمن بن عوفؓ ،معاذ بن جبلؓ ،ابی بن کعبؓ اور زید بن ثابتؓ قابل ذکر ہیں ،عاملوں اور عہدیداروں کے انتخاب میں بھی آپؓ ان لوگوں کو ترجیح دیتے تھے جو زمانہ رسالت میں عامل رہ چکے تھے جب بھی کسی عامل کا انتخاب فرماتے تو اس کو بلا کر اس کے فرائض کی تفصیل اور خوف خدا کے بارے میں ارشاد فرماتے ’’خلوت و جلوت میں خوف خدا رکھو جو اللہ سے ڈرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لیے ایسی جگہ سے رزق کا انتظام فرماتے ہیں جہاں سے وہم و گمان بھی نہیں ہوتا ،جو خدا سے ڈرتا ہے وہ اس کے گناہ معاف کر دیتا ہے ،اور اس کا اجر دو بالا کر دیتا ہے ،بیشک بندگان خدا کی خیر خواہی بہترین تقویٰ ہے ۔
‘‘
فطری جو دت طبع اور دربار نبوت کی حاشہ نشینی سے آسمانی فضل و کمال پر مہر درخشاں ہو کر چمکے فصاحت وبلاغت میں کمال رکھتے تھے ،تقریر و خطابت کا خداداد ملکہ تھا۔ بنی ساعدہ میں آپؓ کی شاہکار تقریر سے بر جستگی اور زور کلام کا اندازہ ہوتا ہے ،اس کے علاوہ نسب دانی ، تعبیر رؤیا ،علم تفسیر ،علم حدیث پر بھی آپؓ کو دسترس حاصل تھی ۔انفاق فی سبیل اللہ ،مہمان نوازی اور لباس و غذا میں سادگی میں اپنی مثا ل آپ تھے۔
27 ماہ کی خلافت کے بعد اپنی لخت جگر ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ سے فرمایا ’’جان پدر ‘‘میری جائیداد فروخت کر کے زمانہ خلافت میں مجلس شوری ٰ کی طرف سے دیے گئے مشاہرے کی مجموعی رقم بیت المال میں جمع کر دینا ،وفات کے وقت پوچھا کہ آج کونسا دن ہے ۔۔۔؟لوگوں نے بتایا دوشنبہ (پیر )پھر پوچھا رسو ل اللہ ﷺ کا وصال کس دن ہوا ۔۔۔؟بتایا گیا اسی روز تو فرمایا میری آرزوہے کہ آج رات تک اس عالم فانی سے رحلت کر جاؤں چنانچہ یہ آرزوبھی پوری ہوئی اور 65برس کی عمر میں ۲۲جمادی الثانیہ ۱۳ھجری کو راہ گزین عالم جاودانی ہو ئے ۔ جس تخت پر آپ ﷺ کو غسل دیا گیا اسی تخت پر حضرت ابوبکرؓ کو غسل دیا گیا۔وصیت کے مطابق آپؓ کی زوجہ اسماء بنت عمیس نے غسل دیااور بیٹے عبدالرحمن نے ان کی مدد کی، حضرت عمر فاروقؓ نے نماز جنازہ پڑھائی اورحضرت عثمان ،طلحہ ،عبد الرحمن بن عوفؓ، اور حضرت عمرؓ نے قبر میں اتارا ، حضرت صدیق اکبرؓ نے دنیا میں رسول اللہ ﷺ کا ساتھ نبھایا ،مہر ووفا کی لازوال داستانیں رقم کیں جس کی نظیر نہیں ملتی ، اس کا صلہ اللہ تعالیٰ نے یہ دیا کہ روضہ رسول میں قیامت تک آپ کو جگہ عطا فرما دی۔
آپ وہ خوش قسمت ترین انسان ہیں جن کے بارے میں پیغمبر اسلامْ ﷺ کا مبارک ارشاد ہے کہ حضرت ابوبکر کے علاوہ کوئی شخص نہیں جس کو میں اسلام کی دعوت دی ہواور اس نے بغیرتامل ،سوچ وبچاراور غور وفکر کے اسلام قبول کر لیا ہو۔تبلیغ اسلام کی وجہ سے مصائب برداشت کئے ،اپنا مال اسلام کے لیے وقف کر دیا،مسلم غلاموں کوخرید کر آزاد کرتے تھے ،ہجرت مدینہ کے سفر میں بنی کریم ﷺ کی معیت نصیب میں آئی،یہ ایک حقیقت ہے کہ آپ کی ہجرت کی ایک رات تمام راتوں سے بہتر تھی جب نبوت کے قدم آبلہ پا ہو گئے تو مخلص وجا نثا ر ساتھی نے سواری کے لیے اپنا کندھا گے پیش کیا ،اور رسول اللہ ﷺ کو غار ثور تک لے گے ،تین دن تک وہاں قیام فرمایا یہیں قرآن پاک کی آیات نصرت الہی کی نوید اور صحابیت صدیق اکبرؓ کے اعلان میں نازل ہوئیں۔یہ ایسی سعادت مندی تھی کہ حضرت عمرؓ اس وجہ سے آپ پر رشک کیاکرتے تھے ۔
ْ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ ہر نبی کے دو وزیر اہل آسمان میں سے اور دو اہل زمین میں سے ہوتے ہیں میرے وزیر اہل آسمان میں جبرائیل اور میکائیل اور اہل زمیں میں سے ابوبکر و عمر ہیں۔(ترمذی)اور فرمایا کہ یقین جانو ! اللہ تعالیٰ نے مجھے تمھاری طرف مبعوث فرمایاتو تم لوگوں نے مجھ سے کہا کہ تم جھوٹ کہتے ہو،صرف ابوبکر نے کہا کہ آپ سچ کہتے ہیں،انہوں نے اپنے مال و جان سے میری غم خواری کی، تو کیا تم اپنی بحث و تنقید سے معاف رکھو گے۔ (صحیح بخاری)سن 9ھجری میں نبی کریم ﷺ نے آپ کو امیر الحجاج بنا کر بھیجا ۔
حضرت ابوبکرؓ واحد شخصیت ہیں جن کے بارے میں رسول اکرم ﷺ کی حیات طیبہ میں ہی ارشاد فرمایا تھا ،ابو بکر سے کہو لوگوں کو نمازپڑھائیں ،اور آپ نے نبی پاک ﷺْ کی موجودگی میں سترہ نمازوں کی امامت کا شرف حاصل کیا۔امت پر سب سے مشکل دن وصال نبوت کا تھا جب تمام صحابہ گومگو کی کیفیت میں مبتلا تھے ، حضرت عمر فاروقؓ جیسا بہادر انسان بھی اس حادثہ عظیم کو ذہنی طور پر قبول کرنے کو تیار نہ تھے،حضرت ابو بکر صدیقؓ نے اس مشکل گھڑی میں امت کو سنبھالا دیا اور راہنمائی کا فریضہ سرانجام دیا،صحابہ کرام نے بالاتفاق آپ کو خلیفۃ الرسول منتخب فرمایا،خلیفہ بننے کے بعد آپؓ نے پوری قوت کے ساتھ فتنوں کا خاتمہ کیا، جھوٹے مدعیان نبوت ہوں یا منکرین زکوٰۃ ہر ایک کو آڑے ہاتھوں لیا ،جیش اسامہ کو روانہ کرکے صحابہ کے جذبوں کو نئی روح عطا کی۔اس میں کوئی شک نہیں کہ خلیفہ دوم حضرت عمر فاروقؓ کے دور خلافت میں بڑی بڑی فتوحات حاصل کی، مہمات امور کا فیصلہ ہوا ،رو م و فارس کی سلطنتوں کو خلافت اسلامیہ میں داخل کیا گیا،لیکن ان سب کی داغ بیل سالار صحابہ، یار غار و مزار خلیفہ رسول سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے دور میں ڈالی گئی۔
خلیفہ راشد سیدنا ابوبکرصدیقؓ کسی بھی اہم معاملے میں اہل الرائے و فقہاء صحابہؓ سے مشورہ لیتے تھے جن میں حضرت عمرؓ ،حضرت عثمانؓ ،حضرت علیؓ ،عبد الرحمن بن عوفؓ ،معاذ بن جبلؓ ،ابی بن کعبؓ اور زید بن ثابتؓ قابل ذکر ہیں ،عاملوں اور عہدیداروں کے انتخاب میں بھی آپؓ ان لوگوں کو ترجیح دیتے تھے جو زمانہ رسالت میں عامل رہ چکے تھے جب بھی کسی عامل کا انتخاب فرماتے تو اس کو بلا کر اس کے فرائض کی تفصیل اور خوف خدا کے بارے میں ارشاد فرماتے ’’خلوت و جلوت میں خوف خدا رکھو جو اللہ سے ڈرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لیے ایسی جگہ سے رزق کا انتظام فرماتے ہیں جہاں سے وہم و گمان بھی نہیں ہوتا ،جو خدا سے ڈرتا ہے وہ اس کے گناہ معاف کر دیتا ہے ،اور اس کا اجر دو بالا کر دیتا ہے ،بیشک بندگان خدا کی خیر خواہی بہترین تقویٰ ہے ۔
‘‘
فطری جو دت طبع اور دربار نبوت کی حاشہ نشینی سے آسمانی فضل و کمال پر مہر درخشاں ہو کر چمکے فصاحت وبلاغت میں کمال رکھتے تھے ،تقریر و خطابت کا خداداد ملکہ تھا۔ بنی ساعدہ میں آپؓ کی شاہکار تقریر سے بر جستگی اور زور کلام کا اندازہ ہوتا ہے ،اس کے علاوہ نسب دانی ، تعبیر رؤیا ،علم تفسیر ،علم حدیث پر بھی آپؓ کو دسترس حاصل تھی ۔انفاق فی سبیل اللہ ،مہمان نوازی اور لباس و غذا میں سادگی میں اپنی مثا ل آپ تھے۔
27 ماہ کی خلافت کے بعد اپنی لخت جگر ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ سے فرمایا ’’جان پدر ‘‘میری جائیداد فروخت کر کے زمانہ خلافت میں مجلس شوری ٰ کی طرف سے دیے گئے مشاہرے کی مجموعی رقم بیت المال میں جمع کر دینا ،وفات کے وقت پوچھا کہ آج کونسا دن ہے ۔۔۔؟لوگوں نے بتایا دوشنبہ (پیر )پھر پوچھا رسو ل اللہ ﷺ کا وصال کس دن ہوا ۔۔۔؟بتایا گیا اسی روز تو فرمایا میری آرزوہے کہ آج رات تک اس عالم فانی سے رحلت کر جاؤں چنانچہ یہ آرزوبھی پوری ہوئی اور 65برس کی عمر میں ۲۲جمادی الثانیہ ۱۳ھجری کو راہ گزین عالم جاودانی ہو ئے ۔ جس تخت پر آپ ﷺ کو غسل دیا گیا اسی تخت پر حضرت ابوبکرؓ کو غسل دیا گیا۔وصیت کے مطابق آپؓ کی زوجہ اسماء بنت عمیس نے غسل دیااور بیٹے عبدالرحمن نے ان کی مدد کی، حضرت عمر فاروقؓ نے نماز جنازہ پڑھائی اورحضرت عثمان ،طلحہ ،عبد الرحمن بن عوفؓ، اور حضرت عمرؓ نے قبر میں اتارا ، حضرت صدیق اکبرؓ نے دنیا میں رسول اللہ ﷺ کا ساتھ نبھایا ،مہر ووفا کی لازوال داستانیں رقم کیں جس کی نظیر نہیں ملتی ، اس کا صلہ اللہ تعالیٰ نے یہ دیا کہ روضہ رسول میں قیامت تک آپ کو جگہ عطا فرما دی۔
Post a Comment
Your Comment Is under Moderation, and will be visible after Admin Approval.